حیدرآباد کی عوام نے فیصلہ دے دیا

     پاکستان میں صوبہ پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہونے جارہا ہے جس میں پاکستان کے ساتویں اور سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد  نے بلدیاتی انتخابات  کی پولنگ سے قبل ہی اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔  حیدرآباد میں بلدیاتی انتیخابات دوسرے مرحلے میں19 نومبر کو  شیڈول ہیں۔ حیدرآباد کی کل آبادی 28 لاکھ سے زائد ہے۔ حیدرآباد میونسپل کارپوریشن سٹی اور لطیف آباد پر مشتمل ہے ، اسکے اعلاوہ حیدرآباد کے دو تعلقہ قاسم آباد اور دیہی حیدرآباد  چار علیحدہ  میونسپل باڈیز کی بھی نمائندہ  ہیں جن میں قاسم  آباد میونسپل کمیٹی ، ڈسٹرکٹ کونسل ، ٹنڈوجام میونسپل کمیٹی ، اور ہوسڑی ٹاؤن کمیٹی شامل ہیں ۔  حیدرآباد شہر میں مجموعی طور پر 96 یونین کونسلز ہیں  ، اور 384 جنرل کونسل کی نشستیں  ہر یونین کونسل کے 4 وارڈز ہیں  ۔
شہر حیدرآباد میں 9 مختلیف جماعتوں کے اتحاد کے باوجود لوکل باڈیز الیکشن سے قبل ہی ایم کیو ایم شہر میں اپنا میئر اور ڈپٹی میئر منتخب کروانے سے صرف ایک قدم دور ہے  انتخابات سے قبل ہی شہر حیدرآباد میں بیشتر ایم کیو ایم کے منتخب کردہ حق پرست امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوچکے  ہیں
حیدرآباد کی 96  یونین کونسلز میں سے 22 یونین کونسلوں میں ایم کیو ایم کے نامزد کردہ چیئرمین اور وائس چیئرمین بلامقابلہ منتخب ہوگئے ہیں، جبکہ 13 یونین کونسلوں میں  بشمول چیئرمین ، وائس چیئرمین اور جنرل کونسلرز کے پورے پورے پینل بلامقابلہ  کامیاب ہوئے ہیں، اور اسکے اعلاوہ حیدرآباد کی جنرل کونسل کی  ٹوٹل 384 نشستوں میں سے جنرل کونسلر کی 198 نشستوں پر ایم کیو ایم  کے امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہوچکے ہیں ۔

Hyderabad Fort 2     images (1)daef    images (1)d            images (1)sdf

http://tribune.com.pk/story/974183/elected-unopposed-mqm-gets-headstart-in-lg-elections-in-hyderabad/

IMG_20151028_054158[1]

images (1)dwsf

اتنی بڑی تعداد میں ایم کیو ایم کے امیدواروں کی بلامقابلہ کامیابی کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حیدرآباد کی میئرشپ اور ڈپٹی میئر شپ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ایم کیو ایم کے زمے ہی آےگی جس کا حقیقی فیصلہ 19 نومبر 2015 کو  سامنے آجائے گا ۔ایم کیو ایم کی حیدرآباد میں کامیابی کوئی نئی بات نہیں کیونکہ اس قبل 1987 کے انتخابات میں بھی ایم کیو ایم کے امیدوار کراچی اور حیدرآباد میں بلامقابلہ میئرز اور ڈپٹی میئرز منتخب ہو چکے ہیں اس کے اعلاوہ 2005 میں بھی ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات میں بھرپور کلین سوئپ کیا تھا جس میں مصطفیٰ کمال کو دنیا کے  بہترین میئرز میں دوسرا نمبر دیا گیا تھا ۔ 

  گزشتہ کئی ماہ سے ایم کیو ایم   کی سیاسی و فلاحی سرگرمیوں  پر غیر اعلانیہ پابندی سی کیفیت ہے نہ ایم کیو ایم کھل کر اپنی سیاسی سرگرمیاں کرپارہی ہے اور نہ ہی فلاحی سرگرمیاں  ، کراچی میں جاری  آپریشن کی آڑ میں متحدہ کے کئی نوجوان کارکنان گرفتار اور  لاپتہ ہیں   دوسری طرف  ایم کیو ایم قائد الطاف حسین کے خطابات کی براہ راست  نشریات اور تصاویر  دکھانے  پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے ، میڈیا پر مسلسل ایم کیو ایم کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے عوام میں میڈیا ٹرائل کے زریعے ایم کیو ایم کی ساکھ متاثر کرنے کی کوشیشیں کی جارہی ہیں مگر تمام منفی پروپیگنڈے کے باوجودحیدرآباد میں عوام کی جانب سے متحدہ کے امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کروانا یہ عوام کے اعتماد کا وہ مظہر ہے جس کا مظاہرہ ابھی تک کسی الیکشن میں  کسی جماعت کے لیےنظر نہیں آیا اور نہ ایسی مثال ملتی ہے ۔   حیدرآباد میں اتنی بڑی تعداد میں ایم کیوایم کے امیدواروں کی کامیابی نے ایک بار پھر واضع کردیا کہ ایم کیو ایم کو شہری سندھ کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور ایم کیو ایم شہری سندھ کی واحد نمائندہ جماعت ہے