فلسفہ حقیقت پسندی،عملیت پسندی

پاکستان کو اس وقت اندرونی اور بیرونی سطح پر جن خطرات کا سامنا ہے اس سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں بسنے والی تمام چھوٹی بڑی قومیتوں کو متحد کیا جائے۔ محرومیوں کو ختم کیاجائے۔ کسی بھی سطح پر عوام کا تقسیم ہونا اُن کےلیے تونقصان دہ ہے ہی ساتھ ساتھ ملک کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔کیونکہ اس سے ملک میں پھیلنے والی بےیقینی کم نہیں بلکہ مزید بڑھےگی۔

پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ آپس کے اتحاد کو مضبوط بنایا جائے۔محرومیوں کو ختم کرکے سب کو پاکستانی کی حیثیت سے گلے لگایا جائے۔ اس کے لیے ایک ایسےشخص کافلسفہ اپنایا جائے جو آپ کو بالکل پسند نہیں ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ اگر کوئی شخص آپ کو پسند نہیں تو اُسکی دُرست بات کو بھی نظرانداز کردیا جائے۔ تمام پاکستانیوں کو متحد کرکےایک قوم تشکیل دینے اور یکجا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بانی متحدہ کے فلسفہ حقیقت پسندی اور عملیت پسندی کو اپنایا جائے۔ تلخ حقائق کو تسلیم کیا جائے۔ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھا جائے۔

ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنے، قومی و بین الاقوامی سطح پر درپیش مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے متحد ہوکر واضح اور منظم حکمتِ عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ متحد ہونے کے لیے ضروری ہےکہ ماضی میں ہونے والی غلطیوں سے سبق حاصل کیا جائے۔ چھوٹی قومیتوں کی احساسِ محرومی ختم کرنے کےلیے فلسفہ حقیقت پسندی اور عملیت پسندی سے کام لیا جائے۔ مثال کے طور پر اربابِ اختیار کی جانب سے عزم کیاجائے یا کہا جائے کہ تمام چھوٹی بڑی قومیتوں کے ساتھ برابر کا سلوک کیاجائےگا/ ہوناچاہیے، کسی کے ساتھ امتیازی رویہ نہیں اپنایا جاناچاہیے ، شہری اور دیہی کا فرق ختم کرکے تمام شہریوں کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں ، تمام قومیتوں کو انکے بنیادی حقوق فراہم کیےجائیںگے۔ ملک کے کسی بھی حصے میں بسنے والے شہریوں کو سندھی ، مہاجر ، پنجابی ، بلوچ، پشتون ، سرائیکی ، ہزاروال، قبائلی نہیں بلکہ پاکستانی کی نظر سے دیکھاجانا چاہیے۔۔ ملک میں ہر شہری کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ جسے چاہے اپنا نمائندہ منتخب کرے اور جسے چاہے مسترد کردے۔ اس پر کسی قسم کی زور زبردستی ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ملک میں آئین و قانون کی عملداری ہونا چاہیے، قانون سب کےلیے یکساں ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب ہر پاکستانی شہری خواہ اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو ، طبقے یا ادارے سے ہو تسلیم کرے گاکہ یہ حقیقت ہے ایسا ہونا چاہیے۔ لیکن حقیقت تسلیم کرنے سے ہی کچھ نہیں ہوگا ۔ ہم برسوں سے انقلاب، تبدیلی اور ملک کی خوشحالی کے لیے کیےجانے والے عزم کو سُنتے آرہے ہیں۔ لیکن آج تک کچھ عملی طور پر ہوتا نہیں دیکھا۔
وقت کا تقاضا ہے کہ دعووں اور وعدوں کو حقیقت کے روپ میں تبدیل کیا جائے۔ حقیقت پسندانہ طور پر اس حقیقت کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ غریب محکوم مظلوم عوام کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، چھوٹی قومیتوں کے حقوق سلب کیے جارہے ہیں۔ لیکن ان زیادتیوں اور محرومیوں کو ختم کرنے کے لیے اربابِ اختیار کی جانب سے عملیت پسندی کا راستہ اختیار کرنے کی ہمت نہیں کی جاتی ۔ ایسا نہیں کہ اربابِ اختیار کو درپیش مسائل کا ادراک نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کوئی عملیت پسندی کا راستہ اپنانے کو تیار نہیں ہے۔ کیونکہ اگر عام شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کردیے جائیں گے ، آئین و قانون پر حقیقتاً عمل ہونے لگے توپھر اسٹیٹس-کو کیسے برقرار رہ سکتا ہے۔؟ عام عوام کی معصومیت سے کھیلنے والے جاگیردار وڈیروں اور سرمایہ داروں کی حکمرانی خطرے میں پڑجائے گی۔ اس طرح یقیناً ملک میں ایک نہ ایک دن غریب مظلوم عوام کی حکمرانی ضرور قائم ہوجائےگی۔ لیکن کچھ بھی ہو آپ تسلیم کیجیے یا نہ کیجیے پاکستان کو فلسفہ حقیقت پسندی اور عملیت پسندی کی اشد ضرورت ہے ۔ اس پر عمل کیے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔

https://www.samaa.tv/urdu/blogs/2018/02/1036596/