پاکستان کا شمار ایٹمی ممالک میں تو کیا جاتا ہے مگر مجھے آج افسوس کے ساتھ لکھنا پڑھ رہا ہے کہ ہم ایک ایٹمی طاقت تو بن گئے مگر ہم آج تک ایک ایسی غیرت مند قوم نہ بن سکے جو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کی نگاہ سے دیکھ سکے۔ آج پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اور ملک میں برسراقتدار حکمران ٹولہ بدترین جمہوریت کی علامت ہے ہمیں آج تباہی کے دہلیز پر پہنچانے میں سیاسی پنڈتوں کا تو ہاتھ ہے ہی مگر انکے ساتھ ساتھ نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹیز ،کالم نگار تجزیہ نگار اور صحافیوں کا بھی ہاتھ ہے جو پاکستان میں  انسانی حقوق کی ہوتی ہوئ تذلیل پر اپنا حق ادا نہیں کرتے اور شائد انسانی حقوق کی علمبردار  تنظیمیں پاکستان میں ہیں ہی نہیں یا پھر پاکستان خاص طور سے کراچی میں غیر انسانی سلوک انھیں نظر نہیں آتا، شائد عدالتی سسٹم پاکستان میں ختم کردیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں کسی  کو انصاف نہیں ملتا دنیا میں ہر جگہ یہ الفاظ سنے تھے کہ قانون اندھا ہوتا ہے ۔ مگر میں نے پاکستان میں اس اندھے قانون کو ہی نہیں دیکھا .. اگر پاکستان میں کسی کو انصاف یاقانون ملے تو وہ  اسکی تصویر بناکرفوٹو  فریم کرے اور کسی عجائب گھرمیں رکھ دے کیونکہ  پاکستان میں انصاف  و قانون جیسے معجزے صدیوں میں  ہوتے ہیں۔    
پاکستان میں ہر طرف بے چینی کی کیفیت ہے ہےکیونکہ پورے پاکستان کو دہشتگردی کے جال نے گھیرا ہوا ہے ایسے میں پورے پاکستان کی نظریں افواج پاکستان قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکومت وقت پر مرکوز ہیں کہ وہ عوام کو دہشتگردوں سے نجات دلاکر انھیں کھل کر آزادی کے ساتھ جینے کا ماحول دیا جاۓ مگر یہ پورے پاکستان کی سوچ ہے ۔ سواۓ  کراچی اور  سندھ کے شہری علاقوں کے کیونکہ  کراچی میں دہشتگردوں کے علاوہ کوئ سادہ لباس گروہ بھی سرگرم ہے جو کھلے عام شہری سندھ کی نمائندہ جماعت  متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان کو گرفتار کرکے ماورائے عدالت  قتل کررہا ہے اور اس پر وفاق اورصوبایئ حکومتوں کی طرف سے کوئ تحقیفات  نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے ۔ متحدہ قومی موومینٹ متعدد ارباب اختیار سے اپنے  کارکنان کے ماورائے عدالت قتل پر تحقیقات کا مطالبہ کرچکے ہیں مگر حکومت وقت کی بے حسی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ کراچی میں سادہ لباس اہلکار ہیں یا کوئی گروہ جو ایم کیو ایم کے  کارکنان کو تشدد کرکے ماورائے عدالت قتل  کررہا ہے اس پر کوئی واضح تحقیقات نہ ہونا تشویشناک بات  ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی سندھ کی حکمران جماعت ہے گزشتہ  7 سالوں سے سندھ میں حکومت کررہی ہے اس کے باوجود وہ کراچی میں امن و امان اور عوام  کے جان و مال کا تحفط کرنے میں مسلسل ناکام ہے ۔ جس کی بنیادی وجہ انکے رہنماوں کی جرائم پیشہ  افراد کی سرپرستی کرنا ہے
گزشتہ 2 سالوں کے درمیان 400 سے زائد کارکنان کو مختلیف وقعات میں اور 30 سے زائد کارکنان کو غیرآئینی ماورائے عدالت قتل کیا جاچکا ہے مگر اب تک انکا کوئی جرم ثابت نہ کیا جاسکا کہ آخر انھیں کیوں شہید  کیا گیا گزشتہ ایک سال سے کراچی میں قانون نافذ کرنے والےادارے جرائم  پیشہ افرادِ کے خلاف آپریشن کررہے ہیں اسکے باوجود ایم کیو ایم کے کارکنان کی تشدد زدہ لاشیں ملنا کراچی اپریش پر شکوک و شبہات کو جنم  دیتاہے کراچی میں بے گناہ اردو بولنے والوں کا قتل عام کسی کو کیوں نظر نہیں آتا؟ کیا کراچی کے شہریوں کا کوئی ولی وارث ہے مسلسل ماورائے عدالت قتل کے واقعات  کراچی کے شہریوں کے زہنوں میں سوال اٹھارہے آخر کراچی میں اردو بولنے والوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کی کیوں؟سادہ لباس اہلکار جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کی آڑ میں بنا وارنٹ کے عام شہریوں کے گھروں چھاپا ماررہے ہیں چار دیواری کا تقدس پامال کیا جارہا ہے اگر  کوئی  مرد نہ ہو تو خواتین کی بے حرمتی کی جاتی ہے کچھ بزرگ خواتین سادہ لباس اہلکاروں کے اس سلوک کو برداشت نہیں کرپاتیں جیسے ایم کیو ایم  برنس روڈ سیکٹر کے کارکن کی والدہ انتیقال کرگیئں گزشتہ روز  سادہ لباس اہلکاروں نے برنس روڈ سیکٹر  کے رہائشی ایم کیو ایم کے کارکن فرحان کے گھر چھاپہ مارا  مگر فرحان بھائی کے گھر پر عدم  موجودگی  میں انکے بھائی کو لے جانے لگے اور ضیف والدہ سے  بدتمیزی کی اور دھکے دیے اور اس ناروا  سلوک  سے انھیں دلی صدمہ  پہنچا اور وہ انتقال کرگیئں  کراچی   میں  اردو  بولنے والوں کا قتل  عام  اب  معمول   بن چکا ہے مہاجر نسل کشی کسی نہ کسی صورت  میں آج بھی   جاری  ہے پہلے 4 نوجوانوں کو کئ  روز  تک  تحویل میں رکھنے کے بعد سادہ لباس  اہلکاروں نے  23 اپریل  2014   کو انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بناکر  فیضانِ    سسلمان قریشی  علی حیدر اور سمیر  کو ماورائے عدالت قتل کرکے لاشیں  میمن گوٹھ میں پھینک پھینک  دیں اور یہ سلسلے  آج   بھی جاری ہیں اور 30 دسمبر کو ایم کیوایم کے ایک اور  کارکن کو ماورائے عدالت قتل کردیا گیا جن کا نام قاصد علی عرف سکندر تھا جنھیں  سادہ لباس اہلکاروں نے جناح انٹرنیشنل ائرپورٹ سے 29 دسمبر کی رات 10 بجے حراست لیا  اور اگلے ہی روز انکی مواچھ گوٹھ  سے برآمد ہوئی. یہ ہے ہمارے محافظ قانون نافذ کرنے والوں کا کردار کراچی کے شہریوں کے ساتھ 

10334332_740684695971285_7551082246007132049_nBbDGCFICAAAZBty

 آئین کے آرٹیکل 10 کے مطابق  گرفتار ملزم  کو گرفتاری کے 24 گھنٹوں کے اندر ایک مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے اور  مجسٹریٹ کی بغیر اجازت کسی کو حراست میں نہیں رکھا جاسکتا مگر  اس کے باوجود کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنان کو بنا عدالتوں میں پیش کیے ماورائے عدالت قتل کردیا جاتا ہے جو  آئین کی  خلاف ورزی ہے پوری پاکستانی قوم قانون نافذ کرنے والے اداروں  حکومت وقت اور افواج پاکستان  سے امید لگائی بیٹھی ہے کہ وہ دہشت گردوں سے عوام کو چھٹکارا دلاے گے مگر  کراچی کے اردو بولنے والوں کو قانون نافذ کرنے والوں میں موجود متعصب اہلکاروں سے کون نجات دلاے گا ؟

B6HgazCCYAAZh-sB6HgazPCIAESQKr

https://www.facebook.com/photo.php?v=733101293396292&video_source=pages_finch_thumbnail_video

https://www.facebook.com/photo.php?v=689213901119684&set=vb.128042927236787&type=2&theater
  کیا پاکستان میں انسانیت کا جذبہ رکھنے والا کوئی نہیں؟دہشتگردوں کو ماورائے عدالت قتل کیوں نہیں جاتا ؟کیا دہشتگرد کراچی کے شہریوں سے زیادہ محب وطن ہیں ؟ کراچی کے شہریوں کا  غیرآئینی ماورائے عدالت قتل عام ہمارے متعصب قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کا یہ اقدام آئینی ہے؟
ایمنیسٹی انٹرنیشنل طالبان دہشتگردوں کو پھانسی دینے پر تو تشویش کا اظہار کرتی ہے مگر انسانی حقوق کی علمبردار ایمنسٹی انٹرنیشنل کو کراچی اور پاکستان میں اردو بولنے والوں ماورائے عدالت قتل عام کیوں نظر نہیں آتا ؟اور ہمارے پاکستان کا میڈیا اتنا بے حس ہوگیا ہے کہ اسے اب اپنے چینلز کی ریٹنگز کے آگے کچھ نظر نہیں آتا لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم  نے کبھی انسانیت کا فرض پورا نہیں کیا تو ہمارے تمام دیگر نیک کام رائیگاں جاۓ گے غلط کو غلط اور صحیح کہنے کی جرات کیجیے کراچی میں ماورائے عدالت قتل عام کے خلاف آٹھ کھڑے ہوں یہ  کسی جماعت یا کسی قوم یا صرف اردو بولنے والوں کا مسلہ نہیں یہ انسانیت و ہمدردی کی مسلہ ہے ہمارے ملک میں  عدل کے تقاضوں کا مسلہ ہے اور آج اگر اردو بولنے والے  ماورائے عدالت قتل ہورہے ہیں تو کل میں اور آپ بھی ہوسکتے ہیں اگر ہم آج  خاموش رہے تو ماورائے عدالت قتل پاکستان میں قانون کی حیثیت اختیار کرجائے گا جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے .

کراچی و سندھ  میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بالکل ناکام ہوچکی ایسا محسوس ہوتا ہے یہاں انسان زندگی بسر نہیں کرتے تھرپارکار میں بچے بھوک افلاس سے مرتے رہے سندھ حکومت سب اچھا ہے کا راگ لاپتی رہی اور کراچی میں لاقانونیت بڑھتی جارہی ہے اور سندھ  حکومت کا اتا پتہ نہیںکوئی ایسا ادارہ نہیں جسے پاکستان پیپلزپارٹی کے دوراقتدار میں تباہ نہ کیا گیا ہو اور بڑھتے ہوے کراچی میں غیرآئینی  ماورائے عدالت قتل عام  نے اب قانون نافذ کرنے والوں کی پوزیشن پر ایک سوالیہ نشان بنادیاہے سندھ حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں بالکل ناکام ہوگی ہے جو آئین کے آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے جس میں لکھا ہے کہ عوام کی عزت و آبرو اور جان و مال کے تحفظ کی زمہ داری حکومت  وقت کی ہے پاکستان پیپلزپارٹی پر بھی آئین پاکستان کی خلاف ورزی پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانا چاہیے اور آئین  کے بیوپاریوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے.